شرارتی بہن کا بھائی کے ساتھ
سیکس۔دوسرا اور آخری حصہ
اور اچھی دوست بعد میں تھی پہلے تو شرارتی بہن ہی تھی مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسکا کیا جواب دوں وہ میرے طرف ہی دیکھے جا رہی تھی موضوع کس طرف جا رہا تھا وہ اس دفع تھوڑا شرمائی اور سمٹی سمٹی سی لگ رہی تھی اسکے گال لال ہو رہے تھے مگر کمبخت اسکا گریبان ابھی تک کھلا ہوا تھا اور وہ تھوڑا جھکی ہوئی تھی اور وہ اپنے آپ کو چھپانے کی زرا بھی کوشش نہیں کر رہی تھی وہ میری نظریں اپنے گریبان پر مرکوز دیکھ کر بھی کچھ نہیں کر رہی تھی میری آنکھوں میں جلن ہونے لگ گئی تھی اور میرا چہرا میرا چہرا گرمی کی وجہ سے دہک رہا تھا۔
میں نے ٹکڑا پھاڑا اور لکھا تم اب کافی بڑی لگ رہی ہو کافی زیادہ میرے خیال میں تو تمہارا سائز کمال ہےمیں نے اپنی تحریر پڑھی اور سوچا یہ آر یا پار ہے اور ہمت کر کے اسکی طرف سرکا دیااس نے ٹکڑا اٹھایا اور پڑھا اس کے ہونٹوں پر ایک بڑی مسکراہٹ آگئی اس نے ٹکڑے کو فولڈ کیا اور اپنے بریزئیرمیں سرکا کر چھپا لیا مجھے لگا میرا سانس رک جائے گا میرے پیٹ میں خالی پن کا احساس ہونے لگا مجھے لگے کہ میں دم گھٹنے سے مر جاونگا اور میرا دم گھٹے جا رہا تھا مجھے اس سے پہلے بوبز اس طرح تاڑنے کا بھی اس حد تک اتفاق نہیں ہوا تھا اور ہوا بھی تو شرارتی بہن کے بوبز پہ کیا عجیب اتفاق تھا۔
اسی وقت امی کی آواز آئی سعدیہ بیٹا کام ختم کر لیا شرارتی بہن سعدیہ نے جوابا کہا جی امی جی کام ختم ہو گیا ۔
میں نے ٹکڑا پھاڑا اور لکھا تم اب کافی بڑی لگ رہی ہو کافی زیادہ میرے خیال میں تو تمہارا سائز کمال ہےمیں نے اپنی تحریر پڑھی اور سوچا یہ آر یا پار ہے اور ہمت کر کے اسکی طرف سرکا دیااس نے ٹکڑا اٹھایا اور پڑھا اس کے ہونٹوں پر ایک بڑی مسکراہٹ آگئی اس نے ٹکڑے کو فولڈ کیا اور اپنے بریزئیرمیں سرکا کر چھپا لیا مجھے لگا میرا سانس رک جائے گا میرے پیٹ میں خالی پن کا احساس ہونے لگا مجھے لگے کہ میں دم گھٹنے سے مر جاونگا اور میرا دم گھٹے جا رہا تھا مجھے اس سے پہلے بوبز اس طرح تاڑنے کا بھی اس حد تک اتفاق نہیں ہوا تھا اور ہوا بھی تو شرارتی بہن کے بوبز پہ کیا عجیب اتفاق تھا۔
اسی وقت امی کی آواز آئی سعدیہ بیٹا کام ختم کر لیا شرارتی بہن سعدیہ نے جوابا کہا جی امی جی کام ختم ہو گیا ۔
میں بس کتابیں سمیٹ رہی تھی شاباش تم دونوں کافی محنت کررہے ہو خدا کرے محنت رنگ لائے امی نے کہامیں نے صرف سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا جو میں اور میری شرارتی بہن محنت کر رہے تھے وہ خدا ہی جانتا تھا کہانی کس موڑ کی طرف جا رہی تھی معلوم نہیں تھا اور اب میں نے زیادہ سوچنے کی بجائے معاملے کو وقت اور حالات کے سپرد کر دینے کا سوچنا شروع کر دیا تھا یا شائد میرا ذہن اس حد تک شرارتی بہن کو تاڑنے پہ آمادہ ہو چکا تھا۔
اور یہ شام اختتام کو پہنچی کافی دیر بعد تک بھی میں اپ سیٹ رہا رات ڈھلنے لگی لیکن وہ سکسی منظر آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو رہا تھا شرارتی بہن اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف جا چکی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ کب میرا اکڑا لن بیٹھے اور میں اٹھوں خیر تھوڑی دیر میں میں اپنے کمرے میں تھا اور میں آج جلدی سونے کے لئے لیٹ گیا۔
اور یہ شام اختتام کو پہنچی کافی دیر بعد تک بھی میں اپ سیٹ رہا رات ڈھلنے لگی لیکن وہ سکسی منظر آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو رہا تھا شرارتی بہن اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف جا چکی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ کب میرا اکڑا لن بیٹھے اور میں اٹھوں خیر تھوڑی دیر میں میں اپنے کمرے میں تھا اور میں آج جلدی سونے کے لئے لیٹ گیا۔
میرے ذہن میں آج کے واقعات کی فلم چل رہی تھی میری نظروں کے سامنے سعدیہ کا گریبان ہی آ رہا تھا اور میں ابھی تک اسکا ہاتھ کاغذ کے ٹکڑے کو بریزئیر میں ٹھونس ہوئے اپنی گہری سوچوں میں دیکھ سکتا تھا پتا نہیں کب اسی دوران مجھ پر نیند کی دیوی مہربان ہو گئی اور میں خوابوں کی وادی میں تھا وہاں بھی بڑے بڑے بوبز نظر آتے رہے۔
اسکے بعد چند دن ہم دونوں ہوم ورک کے لئے اکٹھے نہیں بیٹھ سکے کچھ میری شرمندگی وجہ بنی اور کچھ دوسری مصروفیات اور پھر سوموار کے دن ہم دونوں دوبارہ لاونج میں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے اب میری شرارتہ بہن دوبارہ میرے سامنے بیٹھی تھی اور ہم دونوں اپنے اپنے ہوم ورک میں مصروف تھے۔
میں یوں تو اپنی کتابوں میں مصروف تھا مگر میرا کھڑا ہوتا لن میرے زہن کو پریشان کئے ہوئے تھا امی پاس ہی بیٹھی کوئی رسالہ پڑھ رہی تھیں اور پاپا بھی آج گھر تھے اگر کوئی گڑ بڑ ہو گئی یا شرارتی بہن نے پاپا کو بتا دیا اس کی تو جان چھوٹ جائے گی لیکن میری خیر نہیں تھی یوں ہمارا یہ سکسی سا کھیل بہت مہنگا پڑ سکتا تھا اور پاپا تو پاپا امی نے جو ہاتھ میں ؤئے اسی سے دھلائی شروع کر دیا کرتی تھیں اور اس نے تو شرارتی بہن بن کے جان چھڑا لینی تھی
شرارتی بہن سعدیہ نے پیلے رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی ایک عام سی قمیض کوئی لیس نہیں کوئی بٹن یا نقش نگار نہیں وہ میرے سامنے بیٹھے کچھ پڑھ رہی تھی وہ کچھ غور سے پڑھنے کے لئے جھکی تو اسکے بالوں کی ایک لٹ سامنے آگری جسے اس نے انگلی کی مدد سے کان کے پیچھے اڑس لیا اور میری طرف گہری نظر سے دیکھا میں نے یوں ظاہر کیا جیسے میں اسکی طرف متوجہ ہی نہیں ہوں۔
اور وہ دوبارہ جھکی میری حالت غیر ہوگئی اسکی یہ قمیض تھوڑی کسی ہوئی تھی جسکی وجہ سے اسکا کالے رنگ کا بریزئیر واضع طور پر کپڑوں کے نیچے سے دکھ رہا تھا جھکنے کی وجہ سے شرارتی بہن کی چھاتی کے خطوط خطرناک حد تک واضع ہوگئے تھے اسکا گریبان تھوڑا سا ڈھلک گیا جس سے انگریزی حرف وائے کی طرح دبی ہوئی لکیر نظر آرہی تھی اسکے بریزئیر دائیں طرف سے ہلکا سا باہر جھانکنے لگا اگر اسکے پیچھے بیٹھی ہوئی امی اسے اس حالت میں دیکھ لیتی تو ہم دونوں کی خیر نہیں تھی شرارتی بہن میرے ساتھ کیا کروائے گی میرا ذہن آندھی کی زد میں تھا۔
اور پھر پہلی پرچی میری طرف کھسکی بھائی آج پھر بس کر دیں میری سانس بھاری ہوگئی تھی اور میں دمے کے مریض کی طرح لمبے سانس لینے لگا خیر میں نے پرچی پلٹ کر جواب لکھامیں کیا کروں تم ہی باز نہیں آرہی اس نے میرا جواب پڑھا اور ہلکا سا مسکرائی اس نے سر کھجایا اور نئی پرچی پر جواب لکھنے لگی اور پرچی میری طرف بڑھا دی آپ تو نظر ہی نہیں ہٹا رہے خیر میں نے آج نئے کپڑے پہنے ہیں کیسی لگ رہی ہوں میں نے جواب پڑھا اسکی طرف غور سے دیکھا مگر یہ تو اس کی پرانی قمیض ہی ہےمیں نے یہی لکھ ڈالا یہ تو تمہاری پرانی قمیض نہیں ہے اس میں نیا کیا ہےاس نے پرچی پڑھی اور سر پر ہاتھ مارا اور دوبارہ ایک پیغام لکھ کر میری طرف بڑھا دیااب وہ مجھے بے وقوف بھی سمجھ رہی تھی شائد۔
اور وہ دوبارہ جھکی میری حالت غیر ہوگئی اسکی یہ قمیض تھوڑی کسی ہوئی تھی جسکی وجہ سے اسکا کالے رنگ کا بریزئیر واضع طور پر کپڑوں کے نیچے سے دکھ رہا تھا جھکنے کی وجہ سے شرارتی بہن کی چھاتی کے خطوط خطرناک حد تک واضع ہوگئے تھے اسکا گریبان تھوڑا سا ڈھلک گیا جس سے انگریزی حرف وائے کی طرح دبی ہوئی لکیر نظر آرہی تھی اسکے بریزئیر دائیں طرف سے ہلکا سا باہر جھانکنے لگا اگر اسکے پیچھے بیٹھی ہوئی امی اسے اس حالت میں دیکھ لیتی تو ہم دونوں کی خیر نہیں تھی شرارتی بہن میرے ساتھ کیا کروائے گی میرا ذہن آندھی کی زد میں تھا۔
اور پھر پہلی پرچی میری طرف کھسکی بھائی آج پھر بس کر دیں میری سانس بھاری ہوگئی تھی اور میں دمے کے مریض کی طرح لمبے سانس لینے لگا خیر میں نے پرچی پلٹ کر جواب لکھامیں کیا کروں تم ہی باز نہیں آرہی اس نے میرا جواب پڑھا اور ہلکا سا مسکرائی اس نے سر کھجایا اور نئی پرچی پر جواب لکھنے لگی اور پرچی میری طرف بڑھا دی آپ تو نظر ہی نہیں ہٹا رہے خیر میں نے آج نئے کپڑے پہنے ہیں کیسی لگ رہی ہوں میں نے جواب پڑھا اسکی طرف غور سے دیکھا مگر یہ تو اس کی پرانی قمیض ہی ہےمیں نے یہی لکھ ڈالا یہ تو تمہاری پرانی قمیض نہیں ہے اس میں نیا کیا ہےاس نے پرچی پڑھی اور سر پر ہاتھ مارا اور دوبارہ ایک پیغام لکھ کر میری طرف بڑھا دیااب وہ مجھے بے وقوف بھی سمجھ رہی تھی شائد۔
جناب آپ جہاں دیکھ رہے ہیں میں وہاں کی بات کررہی ہوں پچھلا لباس تنگ تھااوہ تیری خیر یہ شرارتی بہن اپنے بریزئیر کے بارے میں بتا رہی ہیں اور اسے آنکھ بچاکر اپنے گریبان کی طرف اشارہ بھی کر دیا مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میری شرارتی بہن جو کہ ٹین ایج تھی اس قدر شریر اور سیکس بارے بات کرنے میں نڈر بھی ہو سکتی ہے اس کا شوہر بھی خوش قسمت ہو گا کیونکہ بطور مرد مجھے معلوم ہے سیکسی گرم اور سیکس انجوائے کرنے والی بیویاں اکثر بلکہ سبھی کو پسند ہوتیں ہیں اور اس طرح کی لڑکیوں کو عام طور پہ کم طلاق کا سامان کرنا پڑتا ہے۔
شوہر اس طرح کی لڑکی اگر روٹھ جائے تو زیادہ دیر تک اس سے ناراض نہیں رہ سکتا اور جلد منا لیتا ہے مجھے اپنے ہونے والی بہنموئی کی قسمت پہ رشک آ رہا تھا میں ایک بار پھر شرارتی بہن کی سکسی لک کو دیکھا اورمیں نے بھی اس دفعہ ہمت پکڑی اور لکھامجھے تو یہاں سے کچھ نہیں دکھ رہا مجھے کوئی خاص اندازہ نہیں ہو رہا کچھ دکھے گا تو بتاوں گا نا۔
اس نے جب پرچی پڑھی تو اسکے چہرے پر معنی خیزمسکراہٹ دوڑ آئی اس نے میری طرف دیکھا اور سر ہلایااس کا پیغام دوبارہ آن پہنچابھائی اگر امی کو پتہ چل جائے تو ہم دونوں مارے جائے مجھے ایک پریشانی سی ہےمیں نے پیغام پڑھ کر اسکی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا اس نے فورا ایک اور پرچی پھاڑی اور لکھابھائی پلیز میرا مذاق مت اڑانا مجھے لگتا ہے میرے جسم کے ساتھ مسئلہ ہے ۔
اسی دوران ہمسائے کی ملازمہ آئی اور امی سے کہا خالہ جی سبھی عورتیں میلاد میں شرکت کے لیے ہمارے گھر پہنچ چکی ہیں بس آپ کی دیر ہے میری باجی کہہ رہی ہیں خالہ سے کہو جلدی آ جائیں بس ایک ڈیڑھ گھنٹہ میں میلاد کی محفل ختم ہو جائے گی امی نے جواب دیا بیٹی ان سے کہو میرے میاں دوسرے شہر گئے ہوئے ہیں نہ جانے کب آ جائیں ان کے لیے بس کھانا بنا رہی ہوں اور آتی ہوں۔
پھر نہ جانے کیا سوچا اور میری شرارتی بہن سے مخاطب ہوئیں سعدیہ تم پڑھائی سے فارغ ہو کے روٹیاں بنا لینا میں چلی ہی جاتی ہوں کب سے میرا انتظار کر رہی ہیں اور ہاں سنو میں گیٹ کی بند کر کے بیٹھنا آج کل چور ڈاکو سر شام ہی گھس آتے ہیں اور شرارتی بہن نے کہا جی امی اور اس طرح امی ہمسائیوں کے گھر جانے کی تیاری کرنے لگیں ۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے انکا سائز مخلتف ہے مجھے کوئی بیماری تو نہیں میں نے پرچی پڑھی تو الجھ گیا میں اس کی طرف دیکھا وہ دم سادھے میری طرف دیکھ رہی تھی میں نے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کیا اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی چھاتیوں کی طرف اشارہ کیا اور سر نفی میں ہلایا یعنی کہ محترمہ اس حوالے سے پریشان تھی کہ اسکی چھاتیوں کا سائز ایک سا ہے یا نہیں فضول سوال خیر میرا تو بھلا ہو رہا تھا۔
میں نے لکھا کہ میں اتنی دور سے کیسے بتاوں دیکھنا پڑے گاشرارتی بہن نے جواب پڑھ کر سر ہلایا اور لکھاٹھہریں بھائی اس نے میز پر پڑے پانی کی گلاس کو پیا اور تھوڑا سا پانی باقی چھوڑ دیا اور پھر اس پر اس طرح ہاتھ مارا کہ پانی اسکے اوپر آن گرا امی نے گلاس گرنے کی آواز سن کر سر اٹھایا اور کہا کیا ہواشرارتی بہن نے جواب دیا امی پانی گر گیا کپڑوں پرامی نے کہا جاو کپڑے بدل کر آو اور کوئی کام دھیان سے بھی کر لیا کروسعدیہ نے میری طرف دیکھ کر آنکھ ماری اور اٹھ کر آپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
اس دوران امی تیار ہو چکیں تھیں میلاد پہ جانے کے لیے اور مجھے کہا بیٹا گیٹ بند کرو اور میں بس میلاد میں شرکت کر کے آتی ہوں اور میں نے ان کے جانے کے بعد گیٹ بند کیا اور میرا لن اس وقت اور بھی ٹائٹ اور فل کھڑا ہو گیا جب میں اپنی شرارتی بہن کے کمرے کی طرف جا رہا تھا مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا ہو رہا ہے اور آگے کیا ہونے والا ہے۔
جیسے ہی میں اندر داخل ہوا میری حیرت کی انتہا تھی سامنے شرارتی بہن صرف اپنی سکسی بریزئر اور ٹراوزر میں منہ دوسری جانب کیئے کھڑی تھی اور ہاتھ اس نے چھاتیوں پہ رکھے ہوئے تھے میرا لن یو لگا کہ ابھی پھٹ جائے گا اس میں بارود جیسے کسی نے بھر دیا ہو میں نے چند ایک بار بلیو فلم دیکھی تھی بالکل آج بھی اسی طرح میرا لن تن چکا تھا۔
میں نے ہمت کی اور شرارتی بہن کو اپنی جانب کیا وہ شرما رہی تھی میں نے کہا اب شرمانے کی ضرورت نہیں اپنا سائز دکھاو تو پتہ چلے کوئی فرق ہی یا نہیں اس نے کہا دیکھو اور جلدی بتاو میں نے شرارتی بہن سے کہا ایسے کیسے بتاو بریزئر اتارو گی تو اصل مسئلہ معلوم ہو گا اس نے کہا اب یہ کام بھی میں کروں تب مجھے اپنی بے وقوفی پہ افسوس ہوا۔
میں نے اپنی شرارتی بہن کے بریزئر اتار دی واہ کیا چھتیس سائز کے ٹائٹ تنے ہوئے گلابی رنگ کے نپلز والے بوبز تھے میں نے مست چکنے بوبز کو ہاتھوں میں بھر لیا اور جیسے ہی میرا ہاتھ بوبز کے نپل کو ٹچ ہوا بہن کی سسکاری نکل گئی اور اس کا چہرہ لال سرخ ہونے لگا میں نے بوبز کو ہاتھوں میں لیے رکھا جیسے ناپ رہا تھا کوئی فرق تو نہیں اور پھر کہا ایک سائڈ کا کم ہے شرارتی بہن پریشان ہو کے بولی تو اب کیا ہو گا میں نے کہا حل ہے اگر تم اجازت دوں۔
شرما کے بھولی بھیا حل کروں نا مجھے اس مسئلہ کا حل لازمی چاہیئے تب میں نے کمرے کی لائٹ کم کر دی اور اپنی شراتی بہن کو ڈریسنگ ٹیبل پہ بٹھا دیاا ور ہمت کر کے اس کے ایک بوبز جس بارے جھوٹ بولا تھا کہ اس کا سائز کم ہے اسے اپنے ہونٹوں میں لے گیا اور ایک دم سے وہ سسکی اور اس کے بدن کے بال کھڑے ہو گئے بس پھر کیا تھا میں دیوانوں کی طرح اس کے بڑے بڑے ٹائٹ مست بوبز چوسے جا رہا تھاا ور اس کی سسکیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں ۔
مجھے پتہ ہی نہیں چلا کب میں نے اس کا ٹراوزر بھی اتار دیا اور اس کی شیو چوت ایک دم سیل بند ایک فلم دیکھی تھی بالکل اسی انداز سے میں نے اپنی شرارتی بہن کی چوت پہ منہ رکھ دیااا ور چوس چوس کے انتہا کر دی اور اپنے جوان مست لن کا ہیڈ اس کی نکھری نکھری چوت پہ سیٹ کیا اورہلکے ہلکے ڈالنا شروع کیا اس کی چیخیں نکل رہی تھیں اور میرا ہاتھ اس کے منہ پہ تھا لن یوں ا سکی چوت پھاڑ رہا تھا جیسے کورا لٹھا پھٹ رہا ہو۔
پانچ منٹ بعد سارا لن اندر جا چکا تھا اور اگلے پانچ منٹ کی چدائی کے بعد اب اس کی چیخیں بند ہو گئیں تھیں اور پھر ایک دم وہ چلائی بھیا اور زور سے بھیا سارا اندر تک پہنچا دو اور میں نے سارا لن اس کی بچے دانے تک پہنچا دیا اس نے جھٹکے لیئے اور کنواری چوت فارغ ہو گئی اور اگلے ہی لمحے میں نے بھی اپنا لن باہر نکالا اور اس کی چوت کے اوپر منی بکھیر دی شرارتی بہن نے مجھے اپنی بانہوں میں کس لیاا ور بولی بھیا کچھ ہو گا تو نہیں ناں میں نے جواب دیا کچھ نہیں ہو گا بے فکر رہوں میری سویٹ گڑیا اور ہم دونوں دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ کے پڑے رہے۔
No comments:
Post a Comment